امریکی صدارتی انتخابات میں صرف چند روز رہ گئے ہیں۔ اور امریکی اور غیر ملکی میڈیا میں اب کہا جا رہا ہے کہ صدر براک اوباما کا جیتنا اگرچہ یقینی نہیں، تاہم خاصی حد تک ممکن ضرور ہو گیا ہے۔ ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس کی وجہ ان کی خوش قسمتی ہ


واشنگٹن(ثناء نیوز)امریکی صدارتی انتخابات میں صرف چند روز رہ گئے ہیں۔ اور امریکی اور غیر ملکی میڈیا میں اب کہا جا رہا ہے کہ صدر براک اوباما کا جیتنا اگرچہ یقینی نہیں، تاہم خاصی حد تک ممکن ضرور ہو گیا ہے۔ ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس کی وجہ ان کی خوش قسمتی ہے۔انتخابات سے ایک ماہ قبل ری پبلکن جماعت کے امید وار مٹ رومنی نے بڑی تیزی سے صدر اوباما سے عوامی رائے عامہ کے جائزوں میں برتری حاصل کرتے رہے، مگر ان کی پیش رفت کہیں سست یا بعض ریاستوں میں رک گئی ہے۔ پہلے تو سینڈی طوفان کی وجہ سے بھی انتخابی مقابلے کا رخ کسی حد تک تبدیل ہوا ہے۔ڈاکٹر زاہد بخاری امریکی مسلمانوں کی ایک سول سوسائٹی تنظیم کے صدر اور امریکی سیاست کے ماہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات کے اتنے قریب سینڈی کی آمد شاید فیصلہ کن ثابت ہو۔ اور وہ بھی صدر باراک اوباما کے حق میں:قومی بحران کے دوران صدر اوباما نے اپنی قیادت کا مظاہرہ کیا جسے لوگوں نے بڑا سراہا ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ اور چینل اے بی سی نیوز کے ایک مشترکہ جائزے کے مطابق، دس میں سے آٹھ ووٹرز کو صدر اوباما کا سینڈی کے بعد کردار بہت پسند آیا۔ ادھر متاثرہ علاقے نیو جرسی اور نیو یارک شہروں کے گورنر اور میئر نے بھی صدر اوباما کی قیادت کو سراہا۔ڈاکٹر زاہد بخاری کہتے ہیں: نیو جرسی کے گورنر کرس کرسٹی صدر اوباما کے نقاد تھے۔ لیکن سینڈی کے بعد انہوں نے کھل کر صدر اوباما کا استقبال کیا۔ اوباما یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ اس طرح کی قومی مصیبت میں حریف جماعتوں کے رہنما مل کر کام کر سکتے ہیں۔ اور اس سے براہ راست یا بالواسطہ صدر اوباما کو فائدہ ہوا۔ری پبلکن جماعت میں ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مٹ رومنی کے حمایتیوں میں سینڈی کے بعد مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ صدارتی امیدوار ہونے کے ناطے وہ صدر کی طرح امدادی کارروائیوں میں پیش پیش نظر نہیں آسکے۔طوفان گزر گیا، اور اپنے پیچھے بے پناہ تباہی چھوڑ گیا۔ لیکن صدر اوباما کی تقدیر جمعے کے روز پھر جاگ اٹھی جب امریکہ میں روز گار سے متعلق ہفتے وار رپورٹ شائع ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق اکتوبر کے ماہ میں قریبا ایک لاکھ ستر ہزار روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں بے روز گاری کی شرح آٹھ فیصد سے کم ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی معیشت آہستہ سے بہتری کی جانب گامزن ہے۔ امریکی اخبار واشگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کے ذریعے صدر اوباما کہہ سکتے ہیں کہ ان کی پالیسیاں آخر کار عمل میں آرہی ہیں۔امریکی چینل سی این این کی ویب سائٹ پر دونوں امیدواروں نے امریکی عوام کو اپنی طرف قائل کرنے کے لیے مضامین لکھے۔ مٹ رومنی نے کہا کہ “امریکہ مواقع کی سرزمین ہے۔ لیکن معاشی مشکلات نے لاکھوں لوگوں کو بے روزگار چھوڑ دیا ہے۔مٹ رومنی کا منشور تبدیل پر مبنی ہے۔ تاہم صدر اوباما کا اسی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے مضمون میں دلیل پیش کی کہ مٹ رومنی کی پالیسیاں سابق صدر جارج بش کی ہیں، جن کی وجہ سے امریکہ معاشی دلدل میں پھنس گیا۔انھوں نے کہا کہ امریکہ ایسا ملک ہے جہاں کوئی بھی جدوجہد کر کے بہت آگے بڑھ سکتا ہے۔پاکستانی نژاد امریکی محمد قاضی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے گذشتہ انتخابات میں براک اوباما کو ووٹ دیا اور اس سے پہلے جارج بش کو۔ وہ اس سال بھی صدر اوباما کو ووٹ دیں گے۔ واشنگٹن ڈی سی کے ایک کاروباری مرکز میں وہ ایک چھوٹا سا ریستوران چلاتے ہیں، جس میں کھانے کی قیمتوں میں کمزور معیشت اور بے روز گاری کی وجہ سے کمی کی گئی۔ وہ اسی کی دہائی میں امریکہ آئے اور انہوں نے شروع کے دونوں میں بڑے بڑے ہوٹلوں میں برتن بھی دھوئے۔ان کا دعوی ہے کہ وہ امریکی خواب کی تعبیر ہیں، جہاں محنت اور مشقت سے اونچے مقام تک کوئی بھی شخص پہنچ سکتا ہے۔واشنگن ڈی سی سے آدھے گھنٹے دور ورجنیا ریاست کے میک لین کانٹی کے رہائشی پنیت آہلووالیا ری پبلکن جماعت میں فعال ہیں اور ان کا بھی کاروبار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر اوباما کو جو ووٹ دے گا، وہ حقائق کے بجائے جذبات کی بنیاد پر دے گا:مٹ رومنی کی پالیسیاں چھوٹے کاروباروں کے لیے زیادہ مفید ہیں۔میک لین کانٹی میں ایسے گھر نظر آتے ہیں جو آمنے سامنے ضرور ہیں، مگر وہاں سیاسی تفریق واضح طور پر نظر آتی ہے۔ ایک گھر پر مٹ رومنی کے حق میں سائن لگا ہے، تو دوسرے گھر میں براک اوباما کے لیے۔اگر تجزیہ نگار درست ثابت ہوتے ہیں، تو صدر اوباما سیاسی طور پر ایک بٹے ہوئے ملک اور کانگرس پر راج کریں گے۔


Ehtasabi Amal Lahore احتسابي عمل لاھور

تبصرے