سپریم کورٹ آف پاکستان نے کرائے کے بجلی گھروں کو کالعدم قرار دیئے جانے کے فیصلہ پر عملدرآمد نہ ہونے کے حوالے سے وفاقی وزیر مخدوم فیصل صالح حیات کی جانب سے دائر درخواست نمٹاتے ہوئے نیب کو حکم دیا ہے کہ ترک رینٹل کمپنی کار کے سے ایک سو بیس ملین ڈالر کی رقم وصول کرنے کے بعد اسے ملک سے جانے کی اجازت دی جائے


اسلام آباد(ثناء نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے کرائے کے بجلی گھروں کو کالعدم قرار دیئے جانے کے فیصلہ پر عملدرآمد نہ ہونے کے حوالے سے وفاقی وزیر مخدوم فیصل صالح حیات کی جانب سے دائر درخواست نمٹاتے ہوئے نیب کو حکم دیا ہے کہ ترک رینٹل کمپنی کار کے سے ایک سو بیس ملین ڈالر کی رقم وصول کرنے کے بعد اسے ملک سے جانے کی اجازت دی جائے ۔ اگر رقم وصول نہ کی گئی تو ذمہ داری چیئرمین نیب پر ہو گی جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے کرائے کے بجلی گھروں کے منصوبوں کو کالعدم قرار دے کر کمپنیوں سے رقوم کی واپسی کا حکم دیا تھا عدالتی حکم پر من و عن عمل کیا جائے۔ ملک کو لوٹنے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے اوراب ایسا ممکن نہیں کہ کوئی ملک کو لوٹ کر چلا جائے۔ کرپشن سکینڈل پر فیصلے کا مطلب آئیندہ ایسے واقعات کی روک تھا م ہے اور اگر یہ سلسلہ نہیں رکتا تو یہ دکھ اور تشویش کی بات ہے۔سوموار کو رینٹل پاور کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کور ٹ کے تین رکنی بینچ نے کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فیصل صالح حیات نے بڑا سکینڈل بے نقاب کیا ۔رقم ادا کیے بغیرکارکے کوجانے دیا گیا توچیئرمین نیب ذمہ دارہوں گے۔انھوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ ایڈوانس میں سے بجلی کی رقم منہا کرکے باقی رقم وصول کی جائے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ فیصلے کے آٹھ ماہ بعد بھی نیب حساب کتاب میں الجھا ہوا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کارکے سے گارنٹی لے کر اسے جانے کی اجازت دی جائے، گارنٹی اس سے لی جائے جورقم ادا کردے، کے کے آغا نے بتایا کہ ترک سفیرنے بھی کارکے کے معاملہ میں رابطہ کیا ہے، جس پر جسٹس گلزار نے کہا کہ تو کیا پورا پاکستان ترکی کودے دیا جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کرپشن کے کیسزپرفیصلے کا مقصد آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام ہے، سلسلہ نہ رکا تو تشویش ناک بات ہوگی۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مزید کہا کہ رینٹل پاور کیس میں سول اور فوجداری ذمہ داری کا تعین کرنا ہے۔ ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چیئرمین نیب کو ادارتی احترام کی وجہ سے نہیں بلا رہے ہیں ورنہ ان کے خلاف شکایتیں بہت ہیں۔عدالت نے درخواست گذار فیصل صالح حیات اور نیب کو مشترکہ بیان جمع کرانے اور کارکے کے ذمہ واجب الادا رقم بتانے کی ہدایت بھی کی۔دوران سماعت پراسیکیوٹر جنرل نیب کے کے آغا نے موقف اختیار کیا کہ نیب فیصل صالح حیات کے ساتھ مل کر اس مسئلہ کو حل کر سکتی ہے ۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مسئلہ حل کرنے کے حوالے سے بات چیت کی جا رہی ہے ۔ عدالت نے تو منصوبے کو کالعدم قرار دے کر رینٹل کمپنیوں سے رقوم واپس کرانے کا حکم دیا تھا ۔ عدالتی فیصلے پر من و عن عملدرآمد کیا جائے ۔ چیئرمین نیب عدالتی فیصلہ پر بالادستی نہیں رکھتے ۔ عدالتی حکم ماننے کے پابند ہیں ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ تو دیوانی حساب کتاب ہے ابھی تو فوجداری کارروائی بھی ہونی ہے ۔ اس موقع پر نیب کے تفتیشی افسر نے عدالت سے درخواست کی کہ انہیں کیس سے الگ ہونے کا حکم دیا جائے کیونکہ ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے ۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ یہ بات اپنے محکمہ کے اعلیٰ حکام سے کہیں کیونکہ عدالت محکموں کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی ۔ کرائے کے بجلی گھروں کو بطور پشگی ادا کی گئی رقم ہر صورت واپس لی جائے ۔ عدالتی وقفے کے بعد فیصل صالح حیات اور نیب کی جانب سے تحریری جواب عدالت میں جمع کراتے ہوئے پراسیکیوٹر جنرل نیب کے کے آغا نے عدالت کو بتایا کہ نیب نے فیصل صالح حیات کے ساتھ ایک سو بیس ملین ڈالر کا تعین کیا ہے ۔ اور کار کے جہاز کو رقم کی ادائیگی یا بینک گارنٹی کے بعد ہی ملک سے جانے دیا جائے گا ۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر رقم ایک سو بیس ملین سے زائد ہوئی تو ذمہ داری چیئرمین نیب پر ہو گی کیونکہ اس سے قبل عدالت کو زیادہ رقم بتائی گئی تھی ۔ کے کے آغا نے کہا کہ ایک سو بیس ملین ڈالر کی وصولی چیئرمین نیب کی ذمہ داری ہے اگر رقم وصول نہ ہوئی تو نیب قانون کے مطابق کارروائی کرے گا بعدازاں عدالت نے کار کے سے رقم کی وصولی کا حکم دیتے ہوئے فیصل صالح حیات کی درخواست نمٹا دی ۔


Ehtasabi Amal Lahore احتسابي عمل لاھور Click on Ehtasabi Amal Facebook

تبصرے