کل جماعتی حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین سیدعلی شاہ گیلانی نے انکشاف کیا ہے کہ سال1990میں قید کے دوران جے آئی سی جموں میں بھارتی پالیسی سازوں اور خفیہ اداروں کے افسران نے مجھے جموں کشمیر کے وزیر اعظم کے عہدے کی پیشکش کی تھی

نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک ثناء نیوز)کل جماعتی حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین سیدعلی شاہ گیلانی نے انکشاف کیا ہے کہ سال1990میں قید کے دوران جے آئی سی جموں میں بھارتی پالیسی سازوں اور خفیہ اداروں کے افسران نے مجھے جموں کشمیر کے وزیر اعظم کے عہدے کی پیشکش کی تھی شاید بھارت جموں کشمیر میں1953کی پوزیشن کو بحال کرنا چا ہتا تھا میں نے ان پر واضح کیا تھاکہ ہمارے بنیادی کاز میں وزیر اعظم ،وزیر اعلٰی یا کرسی اقتدار کیلئے کو ئی جگہ نہیں ہے۔ گزشتہ روز نئی دہلی سے ثنا نیوز سے ٹیلی فونک انٹرویو میںسید علی گیلانی نے کہا کہ جو لوگ پاکستان جا رہے ہیں ہمیں ان کے دورے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ نئی دہلی میں پاکستان ہائی کمیشن کی طرف سے دورہ پاکستان کے لیے ہم سے رابطہ کیا گیا تھا ۔ پاکستان سے بھی فون آ رہے تھے اور کہا جا رہا تھا کہ پاکستان کے دورے کی تیاری کی جائے ہو سکتا ہے بھارت سفری دستاویزات جاری کر دے علی گیلانی نے کہا کہ ہم نے دو سطحوں پر اس بارے میں غور کیا تحریک حریت اور حریت کانفرنس کے پلیٹ فارم پرمشاورت کی اور اس نتیجے میں پہنچے کہ فی الوقت ہمارا پاکستان کا دورہ مناسب نہیں ۔ ہماری یہ دو ٹوک رائے ہے کہ تنازع کشمیر کے حل میں بڑی رکاوٹ بھارت ہے پاکستان نہیں۔ بھارت نے کشمیریوں کو جدوجہد آزادی سے باز رکھنے کے لیے ایک لاکھ کشمیریوں کو قتل کر دیا ہے دوسری طرف پاکستان ہے جو کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا حامی ہے ان کی وکالت کا دعویدار بھی ہے اور کشمیر کو متنازعہ خطہ بھی قرار دے رہا ہے ایسے میں پاکستان ہماری آزادی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ ہمیں اسکی اعلان کردہ سیاسی اخلاقی اور سفارتی حمایت حاصل ہے ان دنوں پاکستان اندرونی و بیرونی مسائل کاشکار ہے پاکستان میں انتخابات ہونے والے ہیں چنانچہ ان حالات میں پاکستان جا کر کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔انہوں نے کہا کہ سردیوں میں وہ اکثر نئی دہلی آتے رہتے ہیں اب بھی وہ کچھ دن یہاں قیام کریں گے اس دوران وہ مختلف شخصیات سے ملاقاتوں کے علاوہ پڑھنے لکھنے کاکام بھی کریں گے ۔ دورہ پاکستان کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس وقت دورہ پاکستان سے زیادہ اہم یہ ہے کہ کشمیر میں لوگوں کے حوصلے بڑھائے جائیں، دنیا بھر میں کشمیر کا مقدمہ لڑا جائے ۔علی شاہ گیلانی نے کہا کہ پاکستان نے کشمیریوں کی آزادی کو نہیں روک رکھا ہے بلکہ پاکستان 65سال سے یہ ملک کشمیریوں کے کاز کی حمایت کرتا آرہا ہے۔انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کو اہم اور بنیادی فریق قرار دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر پر پاکستان نے بھارت کے ساتھ تین جنگیں بھی لڑیں ،اس ملک کے جوان شہید ہوئے ، کشمیر کی،متنازعہ حیثیت کو تسلیم کیا ہے ،اس ملک نے ہماری آزادی کو سلب نہیں کیا ہے بلکہ یہ بھارت ہے جس نے ہماری آزادی کو چھین لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف کے4نکاتی فارمولہ کے بارے میںبھارت میں پاکستان کے ہائی کمیشن پر انہوں نے اس وقت کے وزیر خارجہ پاکستان خورشید محمودقصوری پر بھی واضح کیا تھا کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی نہیں آنی چاہئے بلکہ پاکستان کو ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بنیادی موقف کو شرطِ اول قرار دیتے ہوئے کہا بنیادی کاز کیلئے موقف پر متفق ہونا چاہئے،سب لوگ متفق نہیں ،سب لوگ الگ الگ راستے اختیار کررہے ہیں۔ان کا کہناتھا ہم تو کہتے ہیں حق خود ارادیت اور ہندوستان نے جو وعدے کئے ہیں اس بنیاد پر مسئلہ کشمیرکو حل کیا جائے ۔ علی گیلانی نے کہا اور جو لوگ اس موقف کے علاوہ اور راستے تلاش کررہے ہیں،اب تک وہ راستے ناکام ہوچکے ہیں ،کسی سے اب تک ان راستوں پر کچھ حاصل نہیں ہواہے۔چیئرمین حریت (گ) نے واضح کیا کہ ان کے بنیادی موقف میں 4نکاتی فارمولہ ،سیلف رول،تقسیم کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ علی گیلانی نے مذاکرات کے پس منظر میں کہا کہ23مارچ1952سے لیکر آج تک بات چیت کے 150سے زیادہ ادوار ہوئے، لیکن آج کوئی یہ دعوی نہیں کرتا کہ مسئلہ کشمیر پر کوئی پیش رفت ہوئی ہے۔ان کا کہناتھا کہ جب ہمالیہ پہاڑ کی طرح یہ ناکامی واضح ہے تو بے مقصدمذاکرات کی دعوت دینے سے کیا حاصل ہوگا۔ بات چیت کے عمل پر انہوںنے مزید کہا کہ اگر مذاکرات کو بامعنی اور با مقصد بنانا ہے تو بھارت کو جموں کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ مذاکراتی عمل کو کامیاب بنانے کیلئے بھارتی فوج کا انخلاء،کالے قوانین کا خاتمہ،جنگی جرائم میں ملوث افراد کو سزا ،غیر مشروط بنیاد پر اسیران کی رہائی لازمی ہے ۔ان کا کہناتھا کہ ان اقدامات کو اٹھانے سے بات چیت کیلئے ماحول بن سکتا ہے۔علی گیلانی نے سہ فریقی مذاکرات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات چیت بھی اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونی چاہئے۔انہوں نے کہاآئین حر یت کے تحت بھارتی آئین کے دائرے کے اندر کوئی بھی حل ناقابل قبول ہے ۔انہوں نے کہا کہ بھارت نے طاقت کے نشے میں چور ہو کر عوام پر دھونس دباؤ کی پالیسی اختیار کی جو ہنوز جاری ہے۔ان کا کہناتھا کہ2008,2009اور سال2010میں عوام نے سڑکوں پر آکر اپنے موقف کو واضح کیا لیکن فوجی طاقت ، پابندیوںاور ظلم وجبر کے چلتے لوگ کس طرح سڑکوں نکل آسکتے ہیں۔بھارت سازشوں کے ذریعے پوری کشمیری قوم کو اپنا ترنوالہ بنانا چاہتا ہے۔ محمدافضل گوروبے قصور ہے ۔ محمد افضل گورو کو ٹرائیل کورٹ میں اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ان کا کہناتھا کہ اگر افضل گورو کوتختہ دار پر لٹکایا جاتا ہے تو وہ بہیمانہ قتل ہوگا جس پر ہم کسی بھی طور پر خاموش نہیں بیٹھ سکتے ، بھارت نے ایسا اقدام اٹھایا تو اسے آسانی کے ساتھ برداشت نہیں کیا جاسکتا 

Ehtasabi Amal Lahore احتسابي عمل لاھور Click on Ehtasabi Amal Facebook

تبصرے