۔چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اڈیالہ جیل سے لاپتہ ہونے والے قیدیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی ۔سپریم کورٹ نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے خفیہ اداروں کی تحویل میں دیئے گئے قیدیوں کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت کے دوران سیکرٹری فاٹا جمال ناصر کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ملزمان کے خلاف ثبوت نہیں ہے تو انہیں رہا کیا جائے ورنہ سخت حکم جاری کیا جائے گا۔عدالت کا کہنا تھا کہ بغیر مقدمہ حراست میں رکھنے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں۔اگر یہ قیدی عسکریت پسند بھی ہیں تو ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جانا چاہیئے

اسلا م آباد (نیوز ایجنسیز ثناء نیوز) حکومت نے پاڑہ چنار میں خفیہ اداروں کے حراستی مرکز میں قید ان سات افراد پر قبائلی علاقوں کے قانونی نظام ایف سی آر کے تحت مقدمات چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ ساتوں افراد ساڑھے تین سال قبل راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے باہر سے لاپتہ ہونے والے گیارہ افراد میں سے ہیں جبکہ دو سگے بھائیوں سمیت باقی چار افراد کا انتقال ہو چکا ہے۔ادھر اڈیالہ جیل کے باہر سے لاپتہ ہونے والے افراد کے معاملے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ حکومت ان افراد کے بارے میں فیصلہ کرے اور اگر اس ضمن میں فیصلہ آیا تو اس کے نتائج سب کو بھگتنا پڑیں گے۔چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اڈیالہ جیل سے لاپتہ ہونے والے قیدیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی ۔سپریم کورٹ نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے خفیہ اداروں کی تحویل میں دیئے گئے قیدیوں کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت کے دوران سیکرٹری فاٹا جمال ناصر کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ملزمان کے خلاف ثبوت نہیں ہے تو انہیں رہا کیا جائے ورنہ سخت حکم جاری کیا جائے گا۔عدالت کا کہنا تھا کہ بغیر مقدمہ حراست میں رکھنے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں۔اگر یہ قیدی عسکریت پسند بھی ہیں تو ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جانا چاہیئے ۔قیدیوںکو چھوڑنے کا کوئی راستہ نکالا جائے اگر غیر قانونی طور پرحراست میں لیے گئے افراد کو رہا نہ کیا گیا تو سخت آرڈر جاری کرنا پڑے گا۔اور عدالت کا حکم کاغذ کا ٹکڑا نہیں ہو گا اس کے نتائج ان افسران کو بھی بھگتنا پڑیں گے جنہوں نے ان کو حراست میں رکھا ۔اور خفیہ ایجنسیاں ان افراد کی غیر قانونی حراست کی ذمہ دار ہیں۔جبکہ اٹارنی جنرل عرفان قادر نے عدالت کو بتایا ہے کہ ان افراد کے خلاف دہشتگردی میں ملوث ہونے کے ثبوت مل گے ہیں یہ لوگ فوجی کانوائے پر حملے میں ملوث ہیں۔۔ جمعرات کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے گیارہ قیدیوں میں سے چار قیدیوں کی ہلاکت کے خلاف روحیفہ بی بی مرحومہ کی جانب سے دائر مقدمہ کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران سیکرٹر ی فاٹا جمال ناصر کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی اور موقف اختیار کیا گیا کہ ان قیدیوں میںسے ہر ملزم سے دو ،دو دستی بم اور کلاشنکوفیں برآمد ہوئیں۔عدالت نے رپورٹ کا جائزہ لیتے ہوئے اسے غیر تسلی بخش قرار دیا عدالت کا کہنا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام افراد سے ایک جیسا اسلحہ برآمد ہو تمام اداروں نے ایک ہی چیز کی برآمدگی ظاہر کی ہے جو نا قابل یقین ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر یہ لوگ عسکریت پسند بھی ہیں تو ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جانا چاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ 120دن کے بعد بھی ملزمان کو حراست میں رکھنے کے لیے دیئے جانے والے احکامات کی تفصیل عدالت میں پیش نہیں کی گئی۔عدالت کو بتایا اے کہ ان قیدیوں کو حراست میں رکھے جانے کی آئینی حیثیت کیا ہے۔عدالت اس بات کی کسی کو اجازت نہیں دے سکتی کہ کسی کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حراست میں موجود قیدیوں کے خلاف ثبوت مل گئے۔ ایک ماہ کا وقت دیا جائیتاکہ ان کے خلاف کیس کو اگے بڑھایا جاسکے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ نے ان قیدیوں کوپندرہ ماہ کس قانون کے تحت قید رکھا۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ قیدی فاٹا میں فوجی قافلے پر حملے میں ملوث ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تمام قیدیوں پر ایک ہی چیز کی برآمدگی ظاہر کی گئی جو ناقابل اعتبار بات ہے۔ آج کے دن تک آپ کے پاس ان افراد کو حراست میں رکھنے کی کوئی اتھارٹی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایجنسیاں غیر قانونی طور پر کسی کو حراست میں رکھنے پر جواب دہ ہیں۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اگر عدالت حکم دے تو ملزموں کا ٹرائل شروع ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم کیا حکم دیں آپ قانون کے مطابق چلیں۔جس قانون کے تحت قیدیوں کو وہاں رکھا گیا ہے اس کی آئینی حثیت چیلنج ہو چکی ہے۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اگر عدالت رہائی کا حکم دے تو وہ عمل کریں گے ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ عدالت پر چھوڑنے کے بجائے خود کوئی راستہ نکالیں۔جمعرات کو معاملے کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ سات افراد فاٹا میں فوجی قافلوں پر حملے میں ملوث ہیں اور ان کے خلاف مقدمات ایف سی آر کے قانون کے تحت چلائے جائیں گے۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئی ایس آئی لکھ کر دے چکی ہے کہ ان افراد کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تو اٹارنی جنرل کے پاس ان کے فوجی قافلوں پر حملوں میں ملوث ہونے کے ثبوت کہاں سے آگئے۔خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پر آئی ایس ائی کے وکیل راجہ ارشاد نے کہا تھا کہ اِن افراد کے خلاف ایسے ثبوت نہیں ملے جن کی بنا پر اِن کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی ہو۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ان افراد کو پندرہ ماہ تک کس قانون کے تحت حراست میں رکھا گیا اور اگر قیدیوں کے خلاف ثبوت تھے تو ٹرائل مکمل کیوں نہیں کیا گیا۔اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ان افراد کو جہاں سے پکڑا گیا وہاں جنگ کی صورتحال ہے اور ان کے خلاف قبائلی علاقہ جات کے قانونی نظام ایف سی آر کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔عرفان قادر کا کہنا تھا کہ قیدیوں کے خلاف شواہد ہیں اور ایک ماہ میں ان کا ٹرائل مکمل کیا جائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس حوالے سے سات سو دیگر افراد بھی زیرِحراست ہیں۔انتیس مئی سنہ دو ہزار نو کو راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کی طرف سے عدم ثبوت کی بنا پر رہا ہونے والے گیارہ افراد کو خفیہ اداروں کے اہلکار اڈیالہ جیل کے باہر سے زبردستی اپنے ساتھ لے گئے تھے اور دسمبر دو ہزار دس میں عدالت کو بتایا گیا تھا کہ یہ افراد فوج کی تحویل میں ہیں جبکہ چھبیس جنوری دو ہزار بارہ کو عدالت میں ان افراد کے پاڑہ چنار میں قید ہونے کی تصدیق کی گئی تھی۔سیکرٹری فاٹا ناصر جمال نے سماعت کے دوران عدالت کو بتایا کہ ان ساتوں افراد سے دستی بم اور غیرقانونی اسلحہ بھی برآمد ہوا جس پر ملزمان کے وکیل نے کہا کہ جب یہ لوگ تین سال سے فوج کی تحویل میں ہیں تو ان سے اسلحہ کیسے برآمد ہوا۔چیف جسٹس نے سیکرٹری فاٹا کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گر ہم نے رہائی کا حکم دیا اس کے دوررس اثرات ہوں گے۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ انہیں مشاور ت کے لئے وقت دیا ئجائے کوئی حل نکال لیں گے چیف جسٹس نے کہا ان قیدیوں کے بارے میں فیصلہ کریں اور اگر اس ضمن میں عدالت نے فیصلہ دیا تو نتائج سب کو بھگتنے پڑیں گے۔اس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اگر وہ ان افراد کی رہائی کا حکم دیتی ہے تو اس پر عمل کیا حکومت سب کام عدالت پر نہ چھوڑ دے اور خود بھی اقدامات کرے۔اٹارنی جنرل نے اس معاملے کی چھان بین اور قیدیوں کے حوالے سے راستہ نکالنے کے لیے ایک ماہ کی مہلت بھی مانگی تاہم عدالت نے درخواست رد کرتے ہوئے سماعت اٹھائیس جنوری تک ملتوی کر دی۔خیال رہے کہ اس معاملے کی گزشتہ سماعت پر پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ خفیہ اداروں کے پاس پاڑا چنار میں قید سات افراد کی مدتِ حراست میں اضافے کا اب کوئی جواز موجود نہیں ہے۔انتیس مئی سنہ دو ہزار نو کو راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کی طرف سے عدم ثبوت کی بنا پر رہا ہونے والے گیارہ افراد کو خفیہ اداروں کے اہلکار اڈیالہ جیل کے باہر سے زبردستی اپنے ساتھ لے گئے تھے اور دسمبر دو ہزار دس میں عدالت کو بتایا گیا تھا کہ یہ افراد فوج کی تحویل میں ہیں جبکہ چھبیس جنوری دو ہزار بارہ کو عدالت میں ان افراد کے پاڑہ چنار میں قید ہونے کی تصدیق کی گئی تھی۔

Ehtasabi Amal Lahore احتسابي عمل لاھور Click on Ehtasabi Amal Facebook
How good is life in this world for a believer because he uses it to prepare his provisions for Paradise. And how evil it is for a disbeliever who uses it to prepare his provisions for Hell - Hasan al-Basri [not a hadith]

تبصرے